گوارہ کی کاشت Cultivation of Cluster Bean
کاشتکار
کا مستقبل اور خوشحالی کا ذریعہ
تعارف:
گوارہ (Cluster Bean) ایک اہم خریف کی فصل ہے جو پاکستان
کے خشک اور نیم خشک علاقوں میں کامیابی سے کاشت کی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف غذائیت سے
بھرپور سبزی فراہم کرتی ہے بلکہ اس کے بیج میں موجود گوار گم (Guar Gum) بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک قیمتی
صنعتی اجزا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنی کم پانی کی ضرورت اور زمین کو بہتر بنانے کی
صلاحیت کی وجہ سے، گوارہ پاکستانی کاشتکاروں کے لیے ایک بہترین انتخاب ثابت ہو
سکتا ہے۔
وقت کاشت:
گوارہ کی کاشت کا بہترین
وقت جولائی کا مہینہ
ہے۔ تاہم، کچھ علاقوں میں جون کے آخر سے اگست کے شروع تک بھی اس کی کاشت کی جا
سکتی ہے۔ بروقت کاشت سے فصل کی بہتر نشوونما اور پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔
بیج فی ایکڑ:
گوارہ کی فی ایکڑ بیج کی مقدار کا انحصار بیج کے سائز اور کاشت کے طریقے پر ہوتا ہے۔ عام طور پر 8 سے 10 کلوگرام بیج فی ایکڑ کافی ہوتا ہے۔ اچھے معیار کا صحتمند اور تصدیق شدہ بیج استعمال کرنا بہتر پیداوار کی بنیاد رکھتا ہے۔ علاقہ ،بیج کی قسم اور زمین کے مطابق بیگ کا وزن فی ایکڑ کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے ۔
پاکستان میں گوارہ کی
کاشت کے لیے مشہور اقسام
پاکستان میں گوارہ کی
کاشت کے لیے کئی اقسام دستیاب ہیں۔ جنہیں ان کی پیداواری صلاحیت خشک سالی برداشت
کرنے کی صلاحیت اور مختلف علاقوں کی موسمیاتی ضروریات کے مطابق منتخب کیا جاتا ہے۔
یہ اقسام اناج (بیج) اور چارے دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
ذیل میں پاکستان میں
کاشت کی جانے والی گوارہ کی چند اہم اقسام کی تفصیل دی گئی ہے۔
1۔ سرکاری اور تحقیقی
اداروں کی تیار کردہ اقسام
یہ اقسام زیادہ تر مقامی
ماحول سے ہم آہنگ ہوتی ہیں اور بارانی علاقوں کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہیں۔
·
جام نگر گوارہ:
- خوبی:
یہ
ایک مقبول اور پرانی قسم ہے۔ یہ خشک سالی کو بہتر طور پر برداشت کرنے کی
صلاحیت رکھتی ہے اور اس کی پیداوار بھی تسلی بخش ہوتی ہے۔ اسے اناج اور چارے
دونوں مقاصد کے لیے کاشت کیا جاتا ہے۔
·
سپریم گوارہ (Supreme
Guar):
- خوبی:
یہ
ایک نسبتاً نئی اور بہتر پیداوار دینے والی قسم ہے۔ اس میں بیج کی مقدار
زیادہ ہوتی ہے اور یہ مختلف موسمی حالات میں بہتر کارکردگی دکھاتی ہے۔
·
ساون گوارہ (Sawan
Guar):
- خوبی:
یہ
قسم بھی اچھی پیداواری صلاحیت رکھتی ہے اور کم پانی والے علاقوں کے لیے
موزوں ہے۔ اس کی پھلیاں اچھی معیار کی ہوتی ہیں، جو سبزی کے طور پر بھی
استعمال کی جا سکتی ہیں۔
2۔ نجی
کمپنیوں کی ہائبرڈ اور ترقی یافتہ اقسام
نجی کمپنیاں بھی گوارہ
کی بہتر پیداوار دینے والی اقسام متعارف کروا رہی ہیں، جو خاص طور پر ان علاقوں کے
لیے موزوں ہوتی ہیں جہاں آبپاشی کی سہولت موجود ہو۔
- بہتر
پیداواری ہائبرڈ اقسام:
- کئی
نجی کمپنیاں (جیسے مختلف سیڈ کمپنیاں) گوارہ کی ہائبرڈ اقسام پیش کر رہی ہیں
جو زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان اقسام کا انتخاب کرتے وقت اس
بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ مقامی موسمی حالات اور زمین سے مطابقت
رکھتی ہوں۔
انتخاب کے لیے اہم نکات:
گوارہ کی قسم کا انتخاب
کرتے وقت کاشتکاروں کو مندرجہ ذیل عوامل کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
- کاشت
کا مقصد:
کیا
آپ گوارہ کو صرف چارے کے لیے کاشت کر رہے ہیں یا بیج (گوار گم) حاصل کرنے کے
لیے؟ بعض اقسام اناج کے لیے بہتر ہیں جبکہ کچھ چارے کے لیے۔
- علاقے
کی آب و ہوا:
بارانی
علاقوں کے لیے خشک سالی برداشت کرنے والی اقسام کا انتخاب کریں۔ آبپاش علاقوں
کے لیے زیادہ پیداواری صلاحیت والی اقسام موزوں ہو سکتی ہیں۔
- زمین
کی نوعیت:
زمین
کی قسم بھی اقسام کے انتخاب میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
- مقامی
محکمہ زراعت سے مشورہ:
سب سے
بہتر یہ ہے کہ اپنے علاقے کے مقامی محکمہ زراعت (توسیع) کے عملے یا کسی زرعی
ماہر سے مشورہ کریں، جو آپ کو اپنے مخصوص حالات کے مطابق بہترین قسم کے بارے
میں رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔اپنے زرعی مشیر سے رابطہ کریں ۔
زمین:
گوارہ مختلف قسم کی
زمینوں میں کاشت کیا جا سکتا ہے، تاہم بھاری
میرا زمین جس میں پانی کا نکاس اچھا ہو، اس کی کاشت کے لیے بہترین
ہے۔ یہ زمین فصل کو مضبوط سہارا فراہم کرتی ہے اور غذائی اجزا کو برقرار رکھنے میں
مدد دیتی ہے۔
تیاری زمین:
اچھی پیداوار کے لیے
زمین کی تیاری بہت اہم ہے۔ سب سے پہلے، زمین کو 2 سے 3 بار ہل چلا کر نرم اور بھربھرا
بنائیں۔ اس کے بعد سہاگہ
پھیر کر زمین کو ہموار کر لیں۔ اگر ممکن ہو تو کاشت سے پہلے روٹاویٹر کا
استعمال زمین کو مزید یکساں کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
طریقہ کاشت:
گوارہ کو عام طور پر قطاروں میں کاشت
کیا جاتا ہے۔ قطاروں کے درمیان فاصلہ 45 سے 60 سینٹی میٹر (1.5 سے 2 فٹ) اور پودوں کے درمیان
فاصلہ 15 سے 20 سینٹی میٹر (6 سے 8 انچ) رکھنا مناسب ہے۔ بیج کو
2 سے 3 سینٹی میٹر گہرائی میں لگائیں۔ کاشت بذریعہ ڈرل یا چھٹہ بھی کی جا
سکتی ہے، تاہم قطاروں میں کاشت سے پودوں کی مناسب دیکھ بھال اور جڑی بوٹیوں کا
کنٹرول آسان ہو جاتا ہے۔
جڑی بوٹیاں اور کنٹرول:
گوارہ کی فصل میں جڑی بوٹیاں
پیداوار کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں۔ ان کے کنٹرول کے لیے گوڈی کرنا ایک عام
اور موثر طریقہ ہے۔ پہلی گوڈی کاشت کے 20 سے 25 دن بعد اور دوسری 40 سے 45 دن بعد
کریں۔ کیمیائی تدارک کے لیے، پینڈی
میتھالین (Pendimethalin) یا
فلوکلورالن
(Fluchloralin) جیسی
جڑی بوٹی مار ادویات بوائی سے پہلے یا فوری بعد استعمال کی جا سکتی ہیں۔
کھاد:
گوارہ کی فصل کو مناسب
کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ زمین کی زرخیزی کے مطابق کھاد کی مقدار مختلف ہو سکتی ہے۔
عام طور پر، کاشت کے وقت ایک
بوری ڈی اے پی (DAP) فی ایکڑ اور پھول نکلتے وقت آدھی بوری یوریا فی ایکڑ
استعمال کرنے سے اچھی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ زمین کا تجزیہ کروا کر کھاد کی
مناسب مقدار کا تعین کرنا زیادہ بہتر ہے۔
پانی:
گوارہ ایک کم پانی والی
فصل ہے اور اسے زیادہ آبپاشی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عام طور پر، ایک یا دو پانی فصل
کی نشوونما کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ پہلا پانی بوائی کے 30 سے 40 دن بعد اور دوسرا
پھول اور پھلی بننے کے مرحلے پر دینا مفید ہے۔ تاہم بارش کی صورتحال کو مدنظر
رکھتے ہوئے آبپاشی کا فیصلہ کریں۔ زیادہ سے زیادہ 3 پانیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
بیماریاں اور علاج:
رس چوسنے والے کیڑے (Sucking
Pests)
یہ کیڑے پودوں کا رس چوس
کر انہیں کمزور کرتے ہیں اور پیداوار میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔ بعض اوقات یہ
وائرل بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
1۔سست تیلا (Aphids)
سست تیلا جسے ہم عام طور
پر "کالا تیلا" کہتے ہیں، پودوں کا رس چوسنے والا ایک چھوٹا سا کیڑا ہے
جو فصل کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔ اسے پہچاننا کافی آسان ہے۔
- چھوٹے
سائز کے کیڑے:
یہ
بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔لیکن اگر غور کریں تو نظر آ جاتے ہیں۔
- رنگ:
زیادہ
تر سبز یا کالے رنگ کے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار زرد مائل بھی ہو سکتے ہیں۔
- کہاں
ملتے ہیں؟
یہ پودوں کے نرم
حصوں، خاص طور پر پتوں
کی نچلی سطح پر اور پودے کی نئی شاخوں پر چپکے ہوئے نظر آئیں
گے۔
- کالونیوں
میں رہنا:
یہ
اکیلے نہیں ہوتے بلکہ ایک ساتھ بہت بڑی تعداد میں جما ہوا نظر آئے گا۔ ایسے
لگتا ہے جیسے پتے کے نیچے چھوٹے چھوٹے نقطوں کا ہجوم ہو۔
- چپچپا
مادہ:
اگر
پودے کے پتوں پر یا نیچے زمین پر شہد جیسا چپچپا مادہ (Honeydew) محسوس ہو اور اس پر کالی سی
پھپھوندی لگی ہو، تو سمجھ جائیں کہ یہ تیلے کا حملہ ہے۔ یہ چپچپا مادہ تیلا
خارج کرتا ہے۔
نقصان:
یہ کیڑے
پتوں اور نرم تنوں سے رس چوستے ہیں۔جس سے پتے پیلے پڑ جاتے ہیں اور مڑ جاتے ہیں۔
یہ شہد جیسا چپچپا مادہ (Honeydew) بھی
خارج کرتے ہیں جس پر کالی پھپھوندی (Sooty Mold) لگ
جاتی ہے۔جو پودے کی ضیائی تالیف (Photosynthesis) کو متاثر کرتی ہے۔ شدید حملے کی صورت میں پودے کی
بڑھوتری رک جاتی ہے اور پھلیاں کم لگتی ہیں۔
- تدارک:
- کیمیائی
کنٹرول:
حملہ
نظر آنے پر امیڈا
کلوپرڈ (Imidacloprid) تھایا میتھوکسام (Thiamethoxam) یا بائی فینتھرین (Bifenthrin) کا سپرے کریں۔ 200-250 ملی لیٹر /گرام فی ایکڑ دوا کو 100-120
لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
- حیاتیاتی
کنٹرول:
فائدہ
مند کیڑے جیسے لیڈی برڈ بیٹل (Ladybird Beetle) اور لیس وِنگ
(Lacewing) ان
کیڑوں کو کھاتے ہیں۔انہیں فروغ دیں۔
- طبعی
کنٹرول:
صبح
کے وقت پانی کے تیز پریشر سے پتوں پر سپرے کرنے سے بھی یہ کیڑے گر جاتے ہیں۔
- کیمیائی
کنٹرول:
حملہ
نظر آنے پر امیڈا
کلوپرڈ (Imidacloprid) تھایا میتھوکسام (Thiamethoxam) یا بائی فینتھرین (Bifenthrin) کا سپرے کریں۔ 200-250 ملی لیٹر /گرام فی ایکڑ دوا کو 100-120
لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
- حیاتیاتی
کنٹرول:
فائدہ
مند کیڑے جیسے لیڈی برڈ بیٹل (Ladybird Beetle) اور لیس وِنگ
(Lacewing) ان
کیڑوں کو کھاتے ہیں۔انہیں فروغ دیں۔
- طبعی
کنٹرول:
صبح
کے وقت پانی کے تیز پریشر سے پتوں پر سپرے کرنے سے بھی یہ کیڑے گر جاتے ہیں۔
2۔ سفید
مکھی (Whitefly)
- پہچان:
یہ
بہت چھوٹے سفید رنگ کے پروں والے کیڑے ہیں جو پتوں کی نچلی سطح پر بیٹھتے
ہیں۔ ان کے بیٹھنے پر ایک چھوٹا سا سفید غبار اٹھتا ہے۔
- نقصان:
سفید
مکھی پودوں کا رس چوس کر انہیں کمزور کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ وائرل بیماریوں (خاص طور پر ییلو
موزیک وائرس) کو ایک پودے سے دوسرے پودے تک پھیلانے کا ذریعہ
بنتی ہے۔ ان کے رس چوسنے سے پتے پیلے ۔کالے۔پڑ جاتے ہیںاور خشک ہو کر گر جاتے
ہیں ۔ اس سے پودا کمزور ہوجاتا ہےاور پیداوار میں کمی
آتی ہے۔زیادہ حملہ کی صورت میں پودا مر بھی جاتا ہے ۔
- تدارک:
- کیمیائی
کنٹرول:
پائری پروکسی فن (Pyriproxyfen) یا فلوڈیکامائڈ (Flonicamid) کا سپرے کریں۔ 250-300 ملی لیٹر فی ایکڑ دوا کو 100-120
لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
- کیمیائی
کنٹرول:
پائری پروکسی فن (Pyriproxyfen) یا فلوڈیکامائڈ (Flonicamid) کا سپرے کریں۔ 250-300 ملی لیٹر فی ایکڑ دوا کو 100-120
لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
3۔تھریپس (Thrips): یہ چھوٹے پتلے کیڑے پتوں
پھولوں اور پھلیوں سے رس چوستے ہیں۔ ان کے حملے سے پتے سلور یا بھورے ہو جاتے ہیں
اور ان پر خراشوں کے نشانات پڑ جاتے ہیں۔
- تدارک:
اس کے علاج کے لئے کلور فینا پائیر ۔ فپروینل (Fipronil) یا سائپر
میتھرین (Cypermethrin) کا سپرے موثر ہے۔
سنڈیاں
(Caterpillars / Larvae)
یہ کیڑے فصل کو براہ
راست نقصان پہنچاتے ہیں خاص طور پر پتوں اور پھلیوں کو کھا کر۔
1۔ امریکن
سنڈی / پھلی کی سنڈی (American Bollworm / Pod Borer)
- پہچان:
یہ
سنڈیاں سبز سے بھورے رنگ کی ہوتی ہیں اور ان کے جسم پر مخصوص دھاریاں ہوتی
ہیں۔
- نقصان:
یہ
سنڈیاں گوارے کی پھلیوں کو کھاتی ہیں۔ جس سے پھلیوں میں سوراخ ہو جاتے ہیں
اور دانے خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ پھولوں اور نرم پتوں پر بھی حملہ کرتی ہیں۔
- تدارک:
- کیمیائی کنٹرول: ایمامییکٹن
بینزوایٹ (Emamectin Benzoate)، کلورینٹرانیلیپرول (Chlorantraniliproleیا لُیوفینورون (Lufenuron) کا سپرے کریں۔ 200-250 ملی
لیٹر فی ایکڑ
(دوا
کی نوعیت کے مطابق) 100-120 لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
- طبعی
کنٹرول:
متاثرہ
پھلیوں کو ہاتھ سے چن کر تلف کرنا یا فیرومون ٹریپس (Pheromone Traps) لگانا۔
- کیمیائی کنٹرول: ایمامییکٹن
بینزوایٹ (Emamectin Benzoate)، کلورینٹرانیلیپرول (Chlorantraniliproleیا لُیوفینورون (Lufenuron) کا سپرے کریں۔ 200-250 ملی
لیٹر فی ایکڑ
(دوا
کی نوعیت کے مطابق) 100-120 لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
- طبعی
کنٹرول:
متاثرہ
پھلیوں کو ہاتھ سے چن کر تلف کرنا یا فیرومون ٹریپس (Pheromone Traps) لگانا۔
2۔ پتے
کھانے والی سنڈی (Leaf Eating Caterpillar)
- پہچان:
یہ
مختلف اقسام کی سنڈیاں ہوتی ہیں جو پتوں کو کھاتی ہیں۔
- نقصان:
یہ
پودے کے پتوں کو بری طرح نقصان پہنچاتی ہیں، جس سے ضیائی تالیف کا عمل متاثر
ہوتا ہے اور پودا کمزور ہو جاتا ہے۔
- تدارک:
- کیمیائی
کنٹرول:
کلورپائری فاس یا لیمبڈا سائی ہیلوتھرین کا سپرے کریں۔ 250-300 ملی
لیٹر فی ایکڑ۔
- کیمیائی
کنٹرول:
کلورپائری فاس یا لیمبڈا سائی ہیلوتھرین کا سپرے کریں۔ 250-300 ملی
لیٹر فی ایکڑ۔
بیکٹیریل بیماریاں (Bacterial
Diseases)
بیکٹیریا سے ہونے والی
بیماریاں پودے کے مختلف حصوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔
1۔ بیکٹیریل
بلائیٹ (Bacterial Blight)
- پہچان:
پتوں
پر چھوٹے پانی بھرے دھبے بنتے ہیں جو بعد میں بڑے ہو کر بھورے یا سیاہ ہو
جاتے ہیں۔ یہ دھبے رگوں کے ساتھ ساتھ پھیلتے ہیں۔
- نقصان:
شدید
حملے کی صورت میں پتے گر جاتے ہیں پھلیاں بھی متاثر ہوتی ہیں اور پیداوار میں
نمایاں کمی آتی ہے۔
- تدارک:
- کیمیائی
کنٹرول:
تانبے
پر مبنی فنگس کش ادویات (Copper based fungicides) جیسے کوپر آکسی
کلورائیڈ (Copper Oxychloride) کا سپرے 2 گرام فی
لیٹر پانی
کے حساب سے کریں۔
- فصلوں
کی گردش:
ایک
ہی جگہ پر بار بار گوارہ کاشت کرنے سے گریز کریں۔
- صحت
مند بیج:
بیماری
سے پاک بیج کا استعمال یقینی بنائیں۔
- کیمیائی
کنٹرول:
تانبے
پر مبنی فنگس کش ادویات (Copper based fungicides) جیسے کوپر آکسی
کلورائیڈ (Copper Oxychloride) کا سپرے 2 گرام فی
لیٹر پانی
کے حساب سے کریں۔
- فصلوں
کی گردش:
ایک
ہی جگہ پر بار بار گوارہ کاشت کرنے سے گریز کریں۔
- صحت
مند بیج:
بیماری
سے پاک بیج کا استعمال یقینی بنائیں۔
فنگس سے ہونے والی
بیماریاں (Fungal Diseases)
فنگس سے ہونے والی
بیماریاں گوارہ کی فصل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
1۔ پاؤڈری
ملڈیو (Powdery Mildew)
- پہچان:
پتوں
کی اوپری اور نچلی سطح پر سفیدپاؤڈر نما دھبے بن جاتے ہیں۔
- نقصان:
یہ
فنگس پودے سے غذائی اجزا چوس لیتی ہےجس سے پتے پیلے پڑ جاتے ہیں۔مڑ جاتے ہیں
اور آخرکار سوکھ جاتے ہیں۔ پھول اور پھلیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
- تدارک:
- کیمیائی
کنٹرول: سلفر پر مبنی فنگس کش ادویات
یا مائیکلو
بیوٹانل (Myclobutanil) ڈائیفینو کونازول (Difenoconazole) کا سپرے کریں۔ 2 گرام فی لیٹر پانی کے حساب سے۔
- ہوا
کی گردش:
پودوں
کے درمیان مناسب فاصلہ رکھیں تاکہ ہوا کی بہتر گردش ہو سکے۔
- کیمیائی
کنٹرول: سلفر پر مبنی فنگس کش ادویات
یا مائیکلو
بیوٹانل (Myclobutanil) ڈائیفینو کونازول (Difenoconazole) کا سپرے کریں۔ 2 گرام فی لیٹر پانی کے حساب سے۔
- ہوا
کی گردش:
پودوں
کے درمیان مناسب فاصلہ رکھیں تاکہ ہوا کی بہتر گردش ہو سکے۔
2. اینتھراکنوز
(Anthracnose)
- پہچان:
پتوں
تنوں اور پھلیوں پر سیاہ یا بھورے رنگ کے دھبے بن جاتے ہیں جو کناروں سے گہرے
ہوتے ہیں۔ پتوں پر دائرے نما دھبے نظر آتے ہیں۔
- نقصان:
شدید
حملے کی صورت میں پتے سوکھ کر گر جاتے ہیں۔تنوں پر زخم بنتے ہیں اور پھلیاں
خراب ہو جاتی ہیں۔
- تدارک:
- کیمیائی
کنٹرول:
مینکو
زیب (Mannose) یا کلورو
تھالونیل (Chlorothalonil) کا سپرے کریں 2.5 گرام فی لیٹر پانی کے حساب سے۔
- صحت
مند بیج:
بیماری
سے پاک بیج استعمال کریں۔
- کیمیائی
کنٹرول:
مینکو
زیب (Mannose) یا کلورو
تھالونیل (Chlorothalonil) کا سپرے کریں 2.5 گرام فی لیٹر پانی کے حساب سے۔
- صحت
مند بیج:
بیماری
سے پاک بیج استعمال کریں۔
3. روٹ روٹ (Root Rot)
/ جڑوں
کی سڑن
- پہچان:
پودا
پیلا پڑ کر مرجھانا شروع کر دیتا ہے اور جڑیں سیاہ ہو کر گل جاتی ہیں۔جڑوں پر
چھوٹی چھوٹی گولیاں یا پھوڑے بن جاتے
ہیں ۔
- نقصان:
یہ
بیماری مٹی میں موجود فنگس کی وجہ سے ہوتی ہے اور پودے کی جڑوں کو سڑا دیتی
ہے۔ جس سے پودا غذائی اجزا اور پانی جذب نہیں کر پاتا اور مر جاتا ہے۔
- تدارک:
- مناسب
نکاسی آب:
زمین
میں پانی جمع نہ ہونے دیں۔
- بیج
کا علاج:
بوائی
سے پہلے بیج کو فنگس کش ادویات جیسے تھائیوفینیٹ میتھائل (Thiophanate Methyl) یا کاربینڈازم (Carbendazim) سے 3 گرام فی
کلوگرام بیج
کے حساب سے لگا کر کاشت کریں۔
- فصلوں
کی گردش:
بیماری
سے بچنے کے لیے فصلوں کی مناسب گردش اپنائیں۔
- مناسب
نکاسی آب:
زمین
میں پانی جمع نہ ہونے دیں۔
- بیج
کا علاج:
بوائی
سے پہلے بیج کو فنگس کش ادویات جیسے تھائیوفینیٹ میتھائل (Thiophanate Methyl) یا کاربینڈازم (Carbendazim) سے 3 گرام فی
کلوگرام بیج
کے حساب سے لگا کر کاشت کریں۔
- فصلوں
کی گردش:
بیماری
سے بچنے کے لیے فصلوں کی مناسب گردش اپنائیں۔
پیداوار:
گوارہ کی فی ایکڑ
پیداوار کا انحصار کاشت کی جانے والی قسم، زمین کی زرخیزی، کاشت کا طریقہ اور
موسمی حالات پر ہوتا ہے۔ مناسب دیکھ بھال اور سازگار حالات میں، گوارہ کی فی ایکڑ
اوسط پیداوار 18 سے 25 من تک حاصل کی جا سکتی ہے۔ کچھ ترقی
یافتہ اقسام اس سے بھی زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اخراجات:
گوارہ کی فی ایکڑ کاشت
پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ مختلف عوامل پر منحصر ہوتا ہے، جیسے کہ زمین کی
تیاری، بیج، کھاد، جڑی بوٹی مار ادویات، آبپاشی، مزدوری اور کٹائی وغیرہ۔ ایک
عمومی اندازے کے مطابق، فی ایکڑ کاشت کا خرچہ 50000 روپے
تک آ سکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار علاقائی لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
آمدن:
بیج :
گوارہ کی فی ایکڑ آمدنی کا انحصار پیداوار اور مارکیٹ میں اس کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اگر اوسط پیداوار 20 من فی ایکڑ ہو اور مارکیٹ میں گوارہ کی قیمت 4500 روپے سے 8000 روپے فی من تک ہوتی ہے ۔ فی ایکڑ آمدنی 100000 روپے تک ہو سکتی ہے۔ گوار گم کے لیے کاشت کی صورت میں آمدنی اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے خاص قسم کے بیج اور معاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیداوار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے ۔
پھلی :
سبز پھلی کیوں کہ بطور سبزی استعمال
کی جاتی ہے ۔ اس لئے سبزی منڈی میں اس کی بہت مانگ ہوتی ہے۔ اور اچھے ریٹوں پر
فروخت بھی ہو جاتی ہے ۔ اس سے اس کی آمدن 2 لاکھ روپے تک یا اس سے بھی زیادہ فی
ایکڑ ہو جاتی ہے ۔ اکثر کاشتکار اس کی سبز پھلیوں سے امدن حاصل کرنے کے بعد اس سے
بیج بھی بنا کر فروخت کرتے ہیں ۔ اور اوسطَ فی ایکڑ دو لاکھ سے 4 لکھ تک اسانی سے
کما لیتے ہیں ۔
مارکیٹنگ:
گوارہ کی مارکیٹنگ کے
لیے مقامی منڈیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ سبزی کے طور پر فروخت کے لیے تازہ پھلیوں کو
منڈی میں لے جایا جا سکتا ہے۔ بیج کے حصول کے لیے کاشت کی صورت میں تاجر اور گوار
گم بنانے والی کمپنیاں بیج کی خریداری کرتی ہیں۔ بہتر قیمت کے حصول کے لیے مارکیٹ
کی صورتحال سے باخبر رہنا ضروری ہے۔
گوارہ کی کاشت اور کسان
کا مستقبل:
گوارہ کی کاشت پاکستانی
کسانوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی نوید لا سکتی ہے۔ اس کی کم پانی کی ضرورت خشک
سالی سے متاثرہ علاقوں کے لیے ایک ہے۔ زمین کو بہتر بنانے کی صلاحیت
اسے فصلوں کی گردش میں ایک اہم جزو بناتی ہے۔ گوار گم کی بین الاقوامی مانگ کسانوں
کو ایک منافع بخش مارکیٹ فراہم کرتی ہے۔ اگر کسان جدید زرعی طریقوں کو اپنائیں،
اچھے معیار کا بیج استعمال کریں اور مناسب دیکھ بھال کریں، تو گوارہ کی کاشت ان کی
آمدنی میں نمایاں اضافہ کر سکتی ہے اور خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے۔ حکومتی سطح پر
گوارہ کی کاشت کو فروغ دینے اور مارکیٹنگ کی سہولیات فراہم کرنے سے اس فصل کا
کسانوں کی زندگی پر مثبت اثر پڑ سکتا ہے۔
مجموعی طور پرگوارہ کی
کاشت پاکستان کے زرعی منظرنامے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور کسانوں کے لیے معاشی
ترقی اور بہتر مستقبل کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔
غلام یاسین
آرائیں زرعی مشیر
ہارویسٹ ہوریزن
کہروڑ پکا
Comments
Post a Comment
Thanks for visit